AIOU

۔ 1857 ء جنگ آزادی کی اہم وجوہات بیان کریں؟

 برصغیر پر انگریزوں کے سیاسی غلبے اور اقتدار کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں میں آزادی کے سلسلے میں احساس محروی پیدا ہوا۔ برصغیر میں تجارت کی غرض سے آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی چالاکیوں کو بھانپ لیا کہ یہ ملک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں میں ردعمل پیدا ہوا۔ انگریز حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ریاستوں کے راجاؤں میں حکومت کے خلاف بددلی پیدا ہوئی تھی ۔ انگریز حکومت نے ریاستوں کو زبردستی اپنے قبضے میں لینا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے برصغیر میں ریاستوں کے راجےحکومت کے خلاف ہو گئے۔

انگریز نسل پرست تھے ان کے نزدیک ان کی نسل ، زبان اور ثقافت ہی مذہب ہونے کی علامت تھی ۔ بجائے اس کے احساسات کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کرتے انہوں نے ان کے زبان ، مذہب اور ثقافت سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کے سیاسی اور سماجی اور معاشی ڈھانچے کو بدلنے کی کوشش کی اور لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام رائج کیا۔ انگریزی زبان و ادب اور طرز زندگی کو مہذب انسانوں کے لئے ہی ضروری سمجھا گیا جن سے نفرت کی خلیج اور بھی وسیع ہوتی گئی ۔مسلمانوں کے دور حکومت میں جنوبی ایشیا اپنی معاشی خوشحالی اور عمدہ تجارتی اشیاء کی وجہ سے مشہور تھا۔

برطانوی تاجروں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کی لوٹ کھسوٹ کی انتہا نہ رہی ۔ ان کا محبوب مشغلہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا تھا۔ کسی ایک فریق کی مدد کر کے بھاری معاوضہ وصول کرتے ۔ میر قاسم کی مدد کر کے میر جعفر کو معزول کرایا اور میر قاسم سے 269,200 پونڈ وصول کیئے جائز اور ناجائز طریقے سے انگریز روپیہ عورتوں کے زیورات اور دیگر نادر اشیا ء وصول کیا کرتے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جنوبی ایشیا کی صنعتوں کو تباہ کر دیا۔

انگریزوں کی حکومت قائم ہوتے ہیں یہ تاثر عام ہو گیا کہ انگریز ہندوؤں کو عیسائی بنانے آئے ہیں ۔ کلکتہ کے کچھ علاقوں میں مشنریوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ اور سیرام پر ان کا مرکز تھا۔ انہی مراکز سے عیسائی اور پادری اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرتے تھے۔ انگریز گورنر جنرل ولزی نے ان کی سر پرستی کی اور کہا کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں کو عیسائیت کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس نے فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل کا عہدہ پادری کے لیے وقف کر دیا۔ جب گورنر جنرل نے عیسائی پادریوں کو سرگرمیوں میں تیزی کے لئے کہا تو اس کے لئے ماتحت افسروں کو علی مراعات بھی اور سکولوں کالجوں جیلوں بازاروں مذہبی اور سماجی تہوار میں جا کر عیسائیت کا پرچار کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔ پادریوں نے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی ۔ انگریز حضو رکی شان میں گستاخیاں کرنے لگے انہوں نے مسلمانوں پر نہایت مقرانہ کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔

تنظیم کا فقدان

 جنگ آزادی کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب مسلمان مجاہدین اور دیگر لڑنے والے گروہوں میں تنظیم کا فقدان تھا۔ مسلمان علم اور رؤسانے کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے جد جہد کی تھی لیکن ہندوؤں اور عوام کے درمیان کسی قسم کا رابط قائم نہ ہو سکا۔

غیرمسلم آبادی کا رویہ

 ہندوؤں کے نزدیک سب سے اہم ان کے معاشی اثاثوں کا تحفظ تھا جب کبھی انگریزوں نے چند سکے عنائیت کیے انہوں نے ان کی مطلوبہ سہولیات فراہم کیں ۔ بہت سے مجاہدین ہندوؤں کی دھوکا دہی کی وجہ سے انگریزوں کے ہاتھ آتے۔

 مسلمان روس کی غداری

 مسلمان حکمران اور روس نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا۔ حیدر آباددکن کے بادشاہ نے مغل سلطنت کی کوئی مدد نہ کی اسی طرح پنجاب کے کئی روسا نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔

 روپے کی قلت

 مجاہدین نے اتنے بڑے پیمانے پر جنگ شروع کر دی تھی مگر ان کے پاس لڑائی کے اخراجات اور سپاہیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے روپیہ نہ تھا۔ بعض مقامات پر مجاہدین نے انگریزوں کے خزانے لوٹے تھے لیکن مرکزی خزانہ نہ ہونے کی وجہ سے دولت ایک جگہ اکٹھی نہ ہوگی۔ اور مجاہدین کو دو وقت کی روٹی میسر تھی۔

 دیگرعوامل

 دیگر عوامل جنہوں نے انگریزوں کی مددکی وہ سائنسی ایجادات تھیں ۔ ڈاک کے جدید نظام کی وجہ سے ان کو بر وقت لڑائی کے واقعات کی خبر ملتی رہتی تھی ۔ اور وہ آسانی سے اس پر قابو پا لیتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں نے انگریزوں کا ساتھ دیامثلاً  حیدرآباد، گوالیار ،نیپال، اور پٹیالہ مجاہدین کی امدادکسی غیرملکی طاقت نے بھی نہ کی جس کی وجہ سے انگریز جنگ آزادی کو کچلنے میں کامیاب ہوگئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button